یہ اکثر تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زک اٹھا کر آئی تھی کیا
نہ کثدم ہیں نہ افعی ہیں نہ اژدر
ملیں گے شہر میں انسان ہی کیا
میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں
فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا
یہ ربط بے شکایت اور یہ میں
جو شے سینے میں تھی وہ بجھ گئی کیا
محبت میں ہمیں پاس انا تھا
بدن کی اشتہا صادق نہ تھی کیا
نہیں ہے اب مجھے تم پر بھروسا
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
جواب بوسہ سچ انگڑائیاں سچ
تو پھر وہ بیوفائی جھوٹ تھی کیا
شکست اعتماد ذات کے وقت
قیامت آ رہی تھی آ گئی کیا
غزل
یہ اکثر تلخ کامی سی رہی کیا
جون ایلیا