EN हिंदी
یہ عجوبہ تو ہو نہیں سکتا | شیح شیری
ye ajuba to ho nahin sakta

غزل

یہ عجوبہ تو ہو نہیں سکتا

نوین سی چترویدی

;

یہ عجوبہ تو ہو نہیں سکتا
سب کچھ اچھا تو ہو نہیں سکتا

جس پہ آتا ہے اس پہ آتا ہے
دل سبھی کا تو ہو نہیں سکتا

چاہ کو تاک پر رکھیں کب تک
یوں گزارہ تو ہو نہیں سکتا

اور کچھ راستہ نہیں ورنہ
غم گوارہ تو ہو نہیں سکتا

اب سے بس مسکرا کے دیکھیں گے
تم سے جھگڑا تو ہو نہیں سکتا

ساتھ میں ہوگی اس کے رسوائی
عشق تنہا تو ہو نہیں سکتا