یہ آنسو کس لئے رکتا نہیں ہے
سمندر تو کہیں پیاسا نہیں ہے
کہیں پتھرا نہ جائیں اس کی آنکھیں
بچھڑ کر مجھ سے وہ رویا نہیں ہے
قیامت دل پے نہ گزرے تو کہنا
تمہارا دل ابھی ٹوٹا نہیں ہے
سلامت ہیں سبھی کمروں کے شیشے
کوئی پتھر ابھی آیا نہیں ہے
نکل جاؤ کہیں تم اے پرندو
ہوا نے راستہ روکا نہیں ہے
کنارہ ہوں میں اک سوکھی ندی کا
کوئی دریا مجھے سمجھا نہیں ہے
ادب سے اس لیے ہے دور راہیؔ
بزرگوں میں ابھی بیٹھا نہیں ہے

غزل
یہ آنسو کس لئے رکتا نہیں ہے
راشد راہی