EN हिंदी
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی | شیح شیری
ye aankhen hain to sar kaTa kar rahengi

غزل

یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی

مصحفی غلام ہمدانی

;

یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی

اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی
تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی

یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل
ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی

کیا ہم نے معلوم نظروں سے تیری
کہ نظریں تری ہم کو کھا کر رہیں گی

یہ آئیں ہیں تو ایک دن آسماں کو
جلا کر کھپا کر اڑا کر رہیں گی

اگر گردشیں آسماں کی یہی ہیں
تو ہم کو بھی گردش میں لا کر رہیں گی

یہ آنکھیں ہیں تو ایک دن مصحفیؔ کو
نگاہوں کے اندر فنا کر رہیں گی