EN हिंदी
یہ آگہی ہے جو کرتی ہے مجھ کو ذات میں گم | شیح شیری
ye aagahi hai jo karti hai mujhko zat mein gum

غزل

یہ آگہی ہے جو کرتی ہے مجھ کو ذات میں گم

مقسط ندیم

;

یہ آگہی ہے جو کرتی ہے مجھ کو ذات میں گم
پھر اس کے بعد میں ہوتا ہوں شش جہات میں گم

یہ کائنات مری جان قفل ابجد ہے
میں کھولتا ہوں اسے کر کے ممکنات میں گم

یہ دائرے ہیں تمہیں پھر سے قید کر لیں گے
فنا سے نکلے تو ہو جاؤ گے ثبات میں گم

میں کربلا ہوں مجھے دیکھ میری قامت دیکھ
زمانہ کر نہیں سکتا مجھے فرات میں گم

تری جدائی کا نیلم الگ سے رکھا ہے
کیا نہیں اسے دنیا کے زیورات میں گم

مرا بڑھاپا مری روح کی تلاش میں ہے
مری جوانی بدن کے لوازمات میں گم

میں علم ہوں مجھے تسخیر کرنا آتا ہے
وہ جہل تھا جو ہوا تیری کائنات میں گم