EN हिंदी
یقیں سے پھوٹتی ہے یا گماں سے آتی ہے | شیح شیری
yaqin se phuTti hai ya guman se aati hai

غزل

یقیں سے پھوٹتی ہے یا گماں سے آتی ہے

راشد طراز

;

یقیں سے پھوٹتی ہے یا گماں سے آتی ہے
یہ دل میں روشنی آخر کہاں سے آتی ہے

مکاں جلے ہیں مکینوں کے قتل عام کے بعد
مہک لہو کی امنڈتے دھواں سے آتی ہے

پیام لاتی ہے اوج فراق کا مجھ تک
ہوا جو مل کے مرے مہرباں سے آتی ہے

قرار دیتی ہے وہ آئینے کو منزل دید
جو گرد اڑ کے ابھی کارواں سے آتی ہے

ضیائے روز ازل ظلمت شبان گراں
فضا ہے جو بھی اسی آسماں سے آتی ہے

ہمیں نہ جا سکے سجدے میں وصل پانے کو
صدا تو اب بھی طرازؔ آستاں سے آتی ہے