یقیں کی حد کو جا پہنچا جو پہلے تھا گماں اپنا
وہی مجرم نکل آیا جو ٹھہرا رازداں اپنا
مری ہستی کا اب احساس خود مجھ میں نہیں باقی
در و دیوار سے میں پوچھتا ہوں خود نشاں اپنا
دیار غیر میں امید وہ بھی دل نوازی کی
تسلی دل کو مل جاتی جو ہوتا ہم زباں اپنا
تمہارے ہجر میں جاناں یہ کیسا حال ہے میرا
نہ ذات لا مکاں اپنی نہ امکان مکاں اپنا
ہے مقتل میں مری گردن پہ خنجر اس پری وش کا
یہی تھا مشغلہ اس کا یہی تھا امتحاں اپنا
تجھے صحرا نوردی سے قمرؔ کتنی محبت ہے
جلا ڈالا ہے خود ہاتھوں سے اپنے آشیاں اپنا

غزل
یقیں کی حد کو جا پہنچا جو پہلے تھا گماں اپنا
قمر عباس قمر