یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے
وہ مہربان ہے لیکن بلائے جاں ہی لگے
ہم اتنی مرتبہ گزرے ہیں آزمائش سے
وہ سیدھی بات بھی پوچھے تو امتحاں ہی لگے
ترس گئے ہیں کہ کھل کر کسی سے بات کریں
ہر آشنا ہمیں غیروں کا راز داں ہی لگے
ہو جیسے کیفیت دل کا آئنہ منظر
وہ ہم سفر ہو تو صحرا بھی گلستاں ہی لگے
میں جیسے مرکزی کردار ہوں کہانی کا
کوئی فسانہ ہو وہ میری داستاں ہی لگے
ترے خیال سے نسبت کا اب یہ عالم ہے
کہیں جھکاؤں جبیں تیرا آستاں ہی لگے
مرے وطن کے سبھی لوگ چاند تارے ہیں
زمین اس کی مجھے جیسے آسماں ہی لگے
سعیدؔ باد سماعت نوائے مطرب ہے
خوشی کا گیت بھی اب نغمۂ فغاں ہی لگے

غزل
یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے
جے پی سعید