یقین آج بھی وہم و گمان میں گم ہے
زمین جیسے کہیں آسمان میں گم ہے
یہ آفتاب بھی کس زاویے سے ڈھلتا ہے
ذرا سی دھوپ لیے آن بان میں گم ہے
دریچے دور ہوئے جاتے ہیں مکینوں سے
صبا بھی صرف طواف مکان میں گم ہے
میں ایک بت ہوں عجائب گھروں میں رکھا ہوا
مرا وجود مری داستان میں گم ہے
نتیجہ پھر سے کہیں ملتوی نہ ہو جائے
مرا سوال ترے امتحان میں گم ہے
غزل
یقین آج بھی وہم و گمان میں گم ہے
مظفر ابدالی