EN हिंदी
یکسو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود | شیح شیری
yaksu bhi lag raha hun bikharne ke bawajud

غزل

یکسو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود

ظفر اقبال

;

یکسو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود
پوری طرح مرا نہیں مرنے کے باوجود

اک دھوپ سی تنی ہوئی بادل کے آر پار
اک پیاس ہے رکی ہوئی جھرنے کے باوجود

اس کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہ تھی مجھے
مصروف تھا میں کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود

پہلا بھی دوسرا ہی کنارہ ہو جس طرح
حالت وہی ہے پار اترنے کے باوجود

اپنی طرف ہی رخ تھا وہاں واردات کا
الزام اس کے نام پہ دھرنے کے باوجود

حیراں ہوں مجھ میں اتنی یہ ہمت کہاں سے آئی
کر ہی گیا ہوں کام جو ڈرنے کے باوجود

ہونا پڑا نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے یہاں
کچھ یاد رہ گیا ہوں بسرنے کے باوجود

جیسا بھی یہ سفر ہو ذرا غور کیجئے
کیسا رواں دواں ہوں ٹھہرنے کے باوجود

نکلا نہیں ہے کوئی نتیجہ یہاں ظفرؔ
کرنے کے باوجود نہ بھرنے کے باوجود