EN हिंदी
یکایک عکس دھندلانے لگے ہیں | شیح شیری
yakayak aks dhundlane lage hain

غزل

یکایک عکس دھندلانے لگے ہیں

بکل دیو

;

یکایک عکس دھندلانے لگے ہیں
نظر میں آئنہ آنے لگے ہیں

زمیں ہے منتظر فصل ضیا کی
فلک پر نور کے دانے لگے ہیں

خزاں آنے سے پہلے بانچ لینا
درختوں پر جو افسانے لگے ہیں

ہمیں اس طرح ہی ہونا تھا آباد
ہمارے ساتھ ویرانے لگے ہیں

فصیل دل گرا تو دوں میں لیکن
اسی دیوار سے شانے لگے ہیں

کبھی فاقہ کشی دکھلائے گی رنگ
اسی میں سولہوں آنے لگے ہیں