EN हिंदी
یک بیک منظر ہستی کا نیا ہو جانا | شیح شیری
yak-ba-yak manzar-e-hasti ka naya ho jaana

غزل

یک بیک منظر ہستی کا نیا ہو جانا

ثروت حسین

;

یک بیک منظر ہستی کا نیا ہو جانا
دھوپ میں سرمئی مٹی کا ہرا ہو جانا

صبح کے شہر میں اک شور ہے شادابی کا
گل دیوار، ذرا بوسہ نما ہو جانا

کوئی اقلیم نہیں میرے تصرف میں مگر
مجھ کو آتا ہے بہت فرماں روا ہو جانا

زشت اور خوب کے مابین جلایا میں نے
جس گل سرخ کو تھا شعلہ نما ہو جانا

چشم کا آئینہ خانے میں پہنچنا ثروتؔ
دل درویش کا مائل بہ دعا ہو جانا