EN हिंदी
یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں | شیح شیری
yahi wafa ka sila hai to koi baat nahin

غزل

یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں

رازؔ الٰہ آبادی

;

یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں
یہ درد تم نے دیا ہے تو کوئی بات نہیں

یہی بہت ہے کہ تم دیکھتے ہو ساحل سے
سفینہ ڈوب رہا ہے تو کوئی بات نہیں

یہ فکر ہے کہیں تم بھی نہ ساتھ چھوڑ چلو
جہاں نے چھوڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں

تمہی نے آئنۂ دل مرا بنایا تھا
تمہی نے توڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں

کسے مجال کہے کوئی مجھ کو دیوانہ
اگر یہ تم نے کہا ہے تو کوئی بات نہیں