یہی تو غم ہے وہ شاعر نہ وہ سیانا تھا
جہاں پہ انگلیاں کٹتی تھیں سر کٹانا تھا
مجھے بھی ابر کسی کوہ پر گنوا دیتا
میں بچ گیا کہ سمندر کا میں خزانہ تھا
تمام لوگ جو وحشی بنے تھے عاقل تھے
وہ ایک شخص جو خاموش تھا دوانہ تھا
پتا چلا یہ ہواؤں کو سر پٹکنے پر
میں ریگ دشت نہ تھا سنگ صد زمانہ تھا
تمام سبزہ و گل تھے ملازم موسم
کلی کا فرض ہی گلشن میں مسکرانا تھا
مرے لیے نہ یہ مستی نہ آگہی ہے حرام
مجھی کو بزم سے اٹھنا تھا سر اٹھانا تھا
وہ میرے حال سے مجھ کو پرکھ رہے تھے حسنؔ
مری نگاہ میں گزرا ہوا زمانہ تھا
غزل
یہی تو غم ہے وہ شاعر نہ وہ سیانا تھا
حسن نعیم