EN हिंदी
یہی ٹھہرا کہ اب اس اور جانا بھی نہیں ہے | شیح شیری
yahi Thahra ki ab us or jaana bhi nahin hai

غزل

یہی ٹھہرا کہ اب اس اور جانا بھی نہیں ہے

سیماب ظفر

;

یہی ٹھہرا کہ اب اس اور جانا بھی نہیں ہے
یہ دوجی بات وہ کوچہ بھلانا بھی نہیں ہے

بوئے صد‌ گل میں بھیگے ہو نہائے ہو دھنک میں
محبت کر رہے ہو اور بتانا بھی نہیں ہے

درون دل ہی رکھو واں حفاظت میں رہے گا
وہ اک راز‌ نہفتہ جو چھپانا بھی نہیں ہے

نہ باراں ہے نہیں طوفاں نہ جھکڑ ہے نہ صرصر
مری زنبیل میں اب اک بہانا بھی نہیں ہے

علاقہ سبز ہے میرا محبت کے شجر سے
کئی صدیوں پہ پھیلا ہے پرانا بھی نہیں ہے

ہوا دے آنچ دھیمی رکھ سلگنے دے جنوں کو
یہ شعلہ نرم رکھنا ہے جلانا بھی نہیں ہے

اگرچہ درد کی ترسیل کا واحد ہے باعث
جنوں پیشہ نے تیرا غم گنوانا بھی نہیں ہے

عجب اک دھوپ‌ چھاؤں سی رچا رکھی ہے تو نے
نہیں ہوتا مرا لیکن بگانہ بھی نہیں ہے

سمیٹا جائے صد پارہ جگر یارو کہ ہم نے
تماشائے دل خستہ منانا بھی نہیں ہے