یہی سمجھا ہوں بس اتنی ہوئی ہے آگہی مجھ کو
نہ راس آئے گی شاید زندگی بھر زندگی مجھ کو
ملا رنج و الم میں بھی سرور زندگی مجھ کو
نظر آتی ہے اکثر تیرگی میں روشنی مجھ کو
نہ اب احساس رنج و غم نہ احساس خوشی مجھ کو
یہ کس مرکز پہ لے آئی مری دیوانگی مجھ کو
چھلک آئے ہیں آنسو جب بھی آئی ہے ہنسی مجھ کو
سناتی ہی رہی پیغام غم میری خوشی مجھ کو
نہ دینا تھا اگر کچھ اختیار زندگی مجھ کو
تو کیوں اے خالق عالم بنایا آدمی مجھ کو
سیہ بختی ہوئی ہے سایہ افگن اس قدر مجھ پر
نظر آتی ہے ہر سو تیرگی ہی تیرگی مجھ کو
جلیسؔ احسان کیا کم ہے یہ میری بد نصیبی کا
تمیز اپنے پرائے کی تو آخر ہو گئی مجھ کو
غزل
یہی سمجھا ہوں بس اتنی ہوئی ہے آگہی مجھ کو
برہما نند جلیس