یہی اک نباہ کی شکل ہے وہ جفا کریں میں وفا کروں
اگر اس پہ بھی نہ نبھی تو پھر مرے کردگار میں کیا کروں
ہے محبت ایسی بندھی گرہ جو نہ ایک ہاتھ سے کھل سکے
کوئی عہد توڑے کرے دغا مرا فرض ہے کہ وفا کروں
میں ہزار باتوں میں ایک بھی کبھی ان سے کھل کے نہ کہہ سکا
اگر ایک طرح کی بات ہو تو ہزار طرح ادا کروں
جو ہنسا تو صورت زخم دل کہ لہو کے قطرے ٹپک پڑے
میں ستم رسیدہ ہوں آرزوؔ نہ بہاؤں اشک تو کیا کروں
غزل
یہی اک نباہ کی شکل ہے وہ جفا کریں میں وفا کروں
آرزو لکھنوی