یہی اک مشغلہ شام و سحر ہے
تصور ہے ترا اور چشم تر ہے
اسے ذکر بہار و باغ سے کیا
قفس کو جو سمجھتا ہو کہ گھر ہے
شب فرقت ہے اپنی کیسی پنہاں
کہ جس کی شام محروم سحر ہے
غزل
یہی اک مشغلہ شام و سحر ہے
بلقیس بیگم
غزل
بلقیس بیگم
یہی اک مشغلہ شام و سحر ہے
تصور ہے ترا اور چشم تر ہے
اسے ذکر بہار و باغ سے کیا
قفس کو جو سمجھتا ہو کہ گھر ہے
شب فرقت ہے اپنی کیسی پنہاں
کہ جس کی شام محروم سحر ہے