یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
مگر کیا ہو گیا ہوں اور کیا ہونا تھا مجھ کو
ابھی اک لہر تھی جس کو گزرنا تھا سروں سے
ابھی اک لفظ تھا میں اور ادا ہونا تھا مجھ کو
پھر اس کو ڈھونڈنے میں عمر ساری بیت جاتی
کوئی اپنی ہی گم گشتہ صدا ہونا تھا مجھ کو
پسند آیا کسی کو میرا آندھی بن کے اٹھنا
کسی کی رائے میں باد صبا ہونا تھا مجھ کو
وہاں سے بھی گزر آیا ہوں خاموشی میں اب کے
جہاں اک شور کی صورت بپا ہونا تھا مجھ کو
در و دیوار سے اتنی محبت کس کے لیے تھی
اگر اس قید خانے سے رہا ہونا تھا مجھ کو
میں اپنی راکھ سے بے شک دوبارہ سر اٹھاتا
مگر اک بار تو جل کر فنا ہونا تھا مجھ کو
میں اندر سے کہیں تبدیل ہونا چاہتا تھا
پرانی کینچلی میں ہی نیا ہونا تھا مجھ کو
ظفرؔ میں ہو گیا کچھ اور ورنہ اصل میں تو
برا ہونا تھا مجھ کو یا بھلا ہونا تھا مجھ کو
غزل
یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
ظفر اقبال