یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
غزال اشک سر صبح دوب مژگاں پر
کب آنکھ اپنی کھلی اور لہو لہو نہ ملا
چمکتے چاند بھی تھے شہر شب کے ایواں میں
نگار غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا
انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میں یہاں
جنہیں ادھر سے کبھی اذن گفتگو نہ ملا
پھر آج مے کدۂ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا
غزل
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
ظفر اقبال