یہاں کے لوگ ہیں بس اپنے ہی خیال میں گم
کوئی عروج میں گم ہے کوئی زوال میں گم
نصاب عشق میں ہجر و وصال ایک سے ہیں
ہے میرے ہجر کا رشتہ ترے وصال میں گم
یہ اک نظارہ الگ ہے سبھی نظاروں سے
مری نظر کا تسلسل ترے جمال میں گم
یہ نازکی مرے شعروں کی بے سبب تو نہیں
کہ میری فکر سخن ہے اسی غزال میں گم
تمہیں ہو کیسے خبر خود مجھے نہیں معلوم
میں کس جواب میں گم ہوں میں کس سوال میں گم
بچا ہے کون یہاں وقت کے تھپیڑوں سے
ہے میری عمر گریزاں بھی ماہ و سال میں گم
یہ شہر خود نگراں ہے نکل چلو طارقؔ
ہر ایک شخص ہے اپنے ہی خد و خال میں گم

غزل
یہاں کے لوگ ہیں بس اپنے ہی خیال میں گم
طارق متین