یہاں جو پیڑ تھے اپنی جڑوں کو چھوڑ چکے
قدم جماتی ہوئی سب رتوں کو چھوڑ چکے
کوئی تصور زنداں بھی اب نہیں باقی
ہم اس زمانے کے سب دوستوں کو چھوڑ چکے
بھٹک رہے ہیں اب اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ
مسافر اپنے سبھی راستوں کو چھوڑ چکے
نکل چکے ہیں ترے روز و شب سے اب آگے
دنوں کو چھوڑ چکے ہم شبوں کو چھوڑ چکے
نہ جانے کس لیے ہجرت پہ وہ ہوئے مجبور
پرندے اپنے سبھی گھونسلوں کو چھوڑ چکے
جو مر گئے انہیں زندان سے نکالیں گے
نہیں کہ اہل قفس قیدیوں کو چھوڑ چکے
اگرچہ ایسا نہیں لگ رہا ہے ایسا مگر
کہ راہی سارے ظفرؔ رہبروں کو چھوڑ چکے

غزل
یہاں جو پیڑ تھے اپنی جڑوں کو چھوڑ چکے
صابر ظفر