یہاں جو بھی تھا تنہا تھا یہاں جو بھی ہے تنہا ہے
یہ دنیا ہے یہ دنیا ہے اسی کا نام دنیا ہے
نہ بولا ان سے جاتا ہے نہ دیکھا ان سے جاتا ہے
یہاں گونگوں کی بستی ہے یہاں اندھوں کا پہرا ہے
وہ منزل تھی تحیر کی یہ منزل ہے تفکر کی
وہاں پردہ بھی جلوہ تھا یہاں جلوہ بھی پردا ہے
وہ عالم تھا تعین کا وہاں پردہ ہی پردہ تھا
یہ عالم ہے تیقن کا یہاں جلوہ ہی جلوہ ہے
سبھی مجروح ہیں اس صید گاہ عیش و حرماں میں
کسی کا زخم اوچھا ہے کسی کا زخم گہرا ہے
جو وہ اک خوش خیالی تھی تو یہ اک کم نگاہی ہے
نہ وہ پھولوں کا گلشن تھا نہ یہ کانٹوں کا صحرا ہے
وہ اہل قال کی مجلس یہ اہل حال کی مجلس
وہاں جو کچھ تھا ماضی تھا یہاں جو کچھ ہے فردا ہے
یہ ندی تو نہیں جو آب شیریں دے سکے تم کو
ہے پانی اتنا ہی نمکیں سمندر جتنا گہرا ہے
یہاں ترشے ہوئے لفظوں کا سکہ چل نہیں سکتا
یہ بازار معانی ہے یہاں موتی بھی قطرہ ہے
جمیلؔ آنکھوں کے پٹ کھولو اسے بھی اک نظر تولو
وہ نیرنگ تصور تھا یہ نیرنگ تماشا ہے
غزل
یہاں جو بھی تھا تنہا تھا یہاں جو بھی ہے تنہا ہے
جمیلؔ مظہری