EN हिंदी
یہاں ہوا کے سوا رات بھر نہ تھا کوئی | شیح شیری
yahan hawa ke siwa raat bhar na tha koi

غزل

یہاں ہوا کے سوا رات بھر نہ تھا کوئی

نصرت مہدی

;

یہاں ہوا کے سوا رات بھر نہ تھا کوئی
مجھے لگا تھا کوئی ہے مگر نہ تھا کوئی

تھی ایک بھیڑ مگر ہم سفر نہ تھا کوئی
سفر کے وقت جدائی کا ڈر نہ تھا کوئی

وہ روشنی کی کرن آئی اور چلی بھی گئی
کھلا ہوا مری بستی کا در نہ تھا کوئی

بس ایک بار وہ بھولا تھا گھر کا دروازہ
پھر اس کے جیسا یہاں در بدر نہ تھا کوئی

جھلس کے رہ گئے آنگن میں دھوپ سے پودے
کہ سایہ دار پرانا شجر نہ تھا کوئی

یہ اور بات رہا بے نیاز محفل میں
یوں میرے حال سے وہ بے خبر نہ تھا کوئی