EN हिंदी
یگانہ ان کا بیگانہ ہے بیگانہ یگانہ ہے | شیح شیری
yagana un ka begana hai begana yagana hai

غزل

یگانہ ان کا بیگانہ ہے بیگانہ یگانہ ہے

ارشد علی خان قلق

;

یگانہ ان کا بیگانہ ہے بیگانہ یگانہ ہے
خدائی سے نرالا ان بتوں کا کارخانہ ہے

نگاہ ناز سے صید اپنا مرغ دل نہیں ہوتا
کبھی اڑتا نہیں ناوک سے جو وہ یہ نشانہ ہے

ادھر کلیاں چٹکتی ہیں ادھر شور عنادل ہے
چمن میں کس کی آمد ہے یہ کیسا شادیانہ ہے

جنوں نے کی ہے قبر قیس کی اس طرح آرائش
چراغ غول روشن ہیں بگولہ شامیانہ ہے

ہمارا حال دل سننے سے دل پر چوٹ لگتی ہے
اڑا دیتا ہے نیند آنکھوں سے جو وہ یہ فسانہ ہے

پھلا پھولا نہ کشت دہر میں تخم امید دل
نہیں آگاہ جو نشو و نما سے یہ وہ دانہ ہے

جہاں کوشش ذرا کی نقد مضمون اس سے ہاتھ آیا
زمین شعر میں بھی دفن کیا کوئی خزانہ ہے

بیاں کرتا ہے میرے وصف اکثر اپنی محفل میں
یہ اس عیار کی مجھ سے لگاوٹ غائبانہ ہے

نوا سنجی سے میری بلبلوں کے ہوش اڑتے ہیں
گلوں سے بھی کہیں رنگیں سوا میرا ترانہ ہے

تو مشتاقوں سے اپنے چشم پوشی روز کرتا ہے
ترے دیدار کی دولت بھی قاروں کا خزانہ ہے

عروس مرگ سے شادی ہوئی ہے خوں سے لب تر ہے
گلے میں یہ شہید ناز کے جوڑا شہانہ ہے

کل ان سے پوچھ لیں گے کرتے ہو اب بھی دل آزاری
جہاں تک چاہیں کر لیں ظلم آج ان کا زمانہ ہے

ہمیں بخشے نہ بخشے دخل یا مرضی میں مالک کی
وگرنہ اس کی رحمت کو تو درکار اک بہانہ ہے

جبیں سا رہتے ہیں ہر دم ملک جن و بشر تو کیا
در دولت سرائے یار کا وہ آستانہ ہے

عنادل کی صدا کیا بوم بھی ہے جس جگہ عنقا
قلقؔ اس گلشن ویراں میں اپنا آشیانہ ہے