EN हिंदी
یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہوگا | شیح شیری
yagana ban ke ho jae wo begana to kya hoga

غزل

یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہوگا

صبا اکبرآبادی

;

یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہوگا
جو پہچانا تو کیا ہوگا نہ پہچانا تو کیا ہوگا

کسی کو کیا خبر آنسو ہیں کیوں چشم محبت میں
فغاں سے گونج اٹھے گا جو ویرانہ تو کیا ہوگا

ہماری سی محبت تم کو ہم سے ہو تو کیا گزرے
بنا دے شمع کو بھی عشق پروانہ تو کیا ہوگا

یہی ہوگا کہ دنیا عقل کا انجام دیکھے گی
حد وحشت سے بڑھ جائے گا دیوانہ تو کیا ہوگا

تعصب درمیاں سے آپ کو واپس نہ لے آئے
حرم کی راہ میں نکلا صنم خانہ تو کیا ہوگا

تصور کیجئے اس آنے والے دور برہم کا
گدا توڑیں گے جب پندار شاہانہ تو کیا ہوگا

مٹا دو حسرت آبادئ دل بھی مرے دل سے
یہ جتنا اب ہے اس سے اور ویرانہ تو کیا ہوگا

نہ تم آؤ گے نہ آواز اپنی لوٹ پائے گی
پکارے گا تمہیں صحرا میں دیوانہ تو کیا ہوگا

فریب زندگی کی داستاں کہنے کو کیا کم ہے
قیامت میں زباں پر اور افسانہ تو کیا ہوگا

لہو کے داغ بڑھ جائیں گے کچھ دیوار زنداں پر
خفا ہو جائے گا زنداں سے دیوانہ تو کیا ہوگا

مداوا ہو نہیں سکتا ہے دل پر چوٹ کھانے کا
مرے قدموں پہ رکھ دو تاج شاہانہ تو کیا ہوگا

صباؔ جو زندگی بھیگی ہوئی ہے بارش گل سے
بلائے گا کسی دن اس کو ویرانہ تو کیا ہوگا