یاس کی کہر میں لپٹا ہوا چہرہ دیکھا
جسم کا ایک بگڑتا ہوا خاکہ دیکھا
اپنی صورت بھی نہ پہچان سکی آنکھ مری
مدتوں بعد جو میں نے کبھی شیشہ دیکھا
شہر پر ہول میں اب کے یہ عجب منظر تھا
سنگ کشادہ تھا مگر سنگ کو بستہ دیکھا
میں بھی گم صم تھا کوئی بات نہ کرنے پایا
اس کے ہونٹوں پہ بھی جیسے کوئی پہرا دیکھا
تیرا قرب ایک تمنا سو تمنا ہی رہی
حاصل عمر یہی ہے ترا رستہ دیکھا
کیا عجب راکھ سے پیدا ہو کوئی قصر عظیم
ہم نے آتش میں بھی گل زار کا نقشہ دیکھا
میں ہی غمگین نہیں ترک تعلق پہ کمالؔ
وہ بھی ناشاد تھا اس کو بھی فسردہ دیکھا

غزل
یاس کی کہر میں لپٹا ہوا چہرہ دیکھا
باغ حسین کمال