یاس ہے حسرت ہے غم ہے اور شب دیجور ہے
اتنے ساتھی ہیں مگر تنہا دل رنجور ہے
تیرا جانا تھا کہ غم خانے پہ وحشت چھا گئی
میں یہ سمجھا تھا مرے گھر سے بیاباں دور ہے
شب کی خاموشی میں ہے تیرا تصور تیری یاد
ہائے کیا سامان تسکین دل رنجور ہے
غزل
یاس ہے حسرت ہے غم ہے اور شب دیجور ہے
افسر میرٹھی