EN हिंदी
یاس ہے حسرت ہے غم ہے اور شب دیجور ہے | شیح شیری
yas hai hasrat hai gham hai aur shab-e-dijur hai

غزل

یاس ہے حسرت ہے غم ہے اور شب دیجور ہے

افسر میرٹھی

;

یاس ہے حسرت ہے غم ہے اور شب دیجور ہے
اتنے ساتھی ہیں مگر تنہا دل رنجور ہے

تیرا جانا تھا کہ غم خانے پہ وحشت چھا گئی
میں یہ سمجھا تھا مرے گھر سے بیاباں دور ہے

شب کی خاموشی میں ہے تیرا تصور تیری یاد
ہائے کیا سامان تسکین دل رنجور ہے