EN हिंदी
یاروں کو کیا ڈھونڈ رہے ہو وقت کی آنکھ مچولی میں | شیح شیری
yaron ko kya DhunD rahe ho waqt ki aankh-micholi mein

غزل

یاروں کو کیا ڈھونڈ رہے ہو وقت کی آنکھ مچولی میں

فاروق انجم

;

یاروں کو کیا ڈھونڈ رہے ہو وقت کی آنکھ مچولی میں
شہر میں وہ تو بٹے ہوئے ہیں اپنی اپنی ٹولی میں

شاہوں جیسا کچھ بھی نہیں ہے گنبد طاق نہ محرابیں
تاج محل کا عکس نہ ڈھونڈو میری شکستہ کھولی میں

ڈھلتے ڈھلتے سورج نے بھی ہم پر یہ احسان کیا
چاند ستارے ڈال دیے ہیں رات کی خالی جھولی میں

میراجیؔ کے دوہے گاؤ یا کہ میرؔ کے شعر پڑھو
درد کے قصے سب نے لکھے ہیں اپنی اپنی بولی میں

اطلس اور کمخواب کی رونق اس میں کہاں سے پاؤ گے
میری غزل تو بیٹھی ہوئی ہے آج غموں کی ڈولی میں