یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو
گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سے
مر کر بھی علاج دل بیمار نہ مانگو
کھل جائے گا اس طرح نگاہوں کا بھرم بھی
کانٹوں سے کبھی پھول کی مہکار نہ مانگو
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ
جینا ہے تو پھر جینے کا اظہار نہ مانگو
اس چیز کا کیا ذکر جو ممکن ہی نہیں ہے
صحرا میں کبھی سایۂ دیوار نہ مانگو
غزل
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
قتیل شفائی