یارو کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بد دعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلا کیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے ہاتھ بھی اپنا جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کر رہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آ کہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے تنہا تو ہی نہ ہو
لا اپنی مہر بھی سر محضر لگاؤں میں
اترا ہے بام سے کوئی الہام کی طرح
جی چاہتا ہے ساری زمیں کو سجاؤں میں
اس جیسا نام رکھ کے اگر آئے موت بھی
ہنس کر اسے قتیلؔ گلے سے لگاؤں میں
غزل
یارو کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں
قتیل شفائی