EN हिंदी
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے | شیح شیری
yar ko raghbat-e-aghyar na hone pae

غزل

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے

شبلی نعمانی

;

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے

اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے

فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے

ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے

باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے

جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبئ بزم
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے

آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ
حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے