یار کو بے حجاب دیکھا ہوں
میں سمجھتا ہوں خواب دیکھا ہوں
یہ عجب ہے کہ دن کوں تاریکی
رات کوں آفتاب دیکھا ہوں
نسخۂ حسن میں ترے قد کوں
مصرع انتخاب دیکھا ہوں
کس ستی اب امید لطف رکھوں
تجھ نگہ سیں عتاب دیکھا ہوں
اب ہوا سب سیں فارغ التحصیل
بے خودی کی کتاب دیکھا ہوں
لشکر عشق جب سیں آیا ہے
ملک دل کوں خراب دیکھا ہوں
مجلس چشم مست ساقی میں
دور جام شراب دیکھا ہوں
اے سراجؔ آتش محبت میں
دل کوں اپنے کباب دیکھا ہوں
غزل
یار کو بے حجاب دیکھا ہوں
سراج اورنگ آبادی