یار کا وصل شبا شب نہ ہوا تھا سو ہوا
ساغر عشق لبا لب نہ ہوا تھا سو ہوا
لے چکا دل کو وہ مجھ ہاتھ سے تب میں نے کہا
اس قدر تیرا مطالب نہ ہوا تھا سو ہوا
جور اور ظلم سے دنیا میں یہ خوباں کا اسم
بے وفائی کا ملقب نہ ہوا تھا سو ہوا
کرنا تسخیر ہر اک دل کو دو اک باتوں میں
اس طرح کا بھی عجائب نہ ہوا تھا سو ہوا
روز لگتا ہے ترے کان سے جا جا کے رقیب
کسو کا اتنا مراتب نہ ہوا تھا سو ہوا
غیروں کی بر میں ترے اب تو یہ کچھ کثرت ہے
یعنی ہر کوئی مصاحب نہ ہوا تھا سو ہوا
مہر استاد کی سے دیکھو تو اس نینؔ کے تئیں
شعر کہنے کا کبھی ڈھب نہ ہوا تھا سو ہوا
غزل
یار کا وصل شبا شب نہ ہوا تھا سو ہوا
نین سکھ