یار اک لذت دیدار سے آگے نہ گئے
یعنی زلف و لب و رخسار سے آگے نہ گئے
جوش میں صورت نادار جو آتے ہیں نظر
ہوش میں شکوۂ زر دار سے آگے نہ گئے
تھا وہیں کوۓ مغاں چار قدم پر افسوس
کیا کیا ہم نے کہ بازار سے آگے نہ گئے
غم جو آزار تھا اک دولت بیدار ہے اب
ہم تو اس دولت بیدار سے آگے نہ گئے
شب نے جلوہ کیا دو چار طرب خانوں میں
صبح کے جلوے بھی دیوار سے آگے نہ گئے
زلف کی چھاؤں میں سوئے نہ خطر میں جاگے
ہائے وہ لوگ جو بیگار سے آگے نہ گئے
آسماں توڑ کے آدم تو زمیں تک آیا
مہر و مہ گردش پرکار سے آگے نہ گئے
غزل
یار اک لذت دیدار سے آگے نہ گئے
خورشید الاسلام

