EN हिंदी
یاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا | شیح شیری
yan us gali sa kab koi bustan hai dusra

غزل

یاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا

جرأت قلندر بخش

;

یاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا
ہاں کچھ جو ہے تو روضۂ رضواں ہے دوسرا

ہر دم یہ دو عدو ہیں پئے جان ناتواں
اک درد عشق ہے غم ہجراں ہے دوسرا

ہے طرفہ جان و دل کا دم اضطراب حال
روکیں جو ایک کو تو گریزاں ہے دوسرا

آئینہ جب وہ دیکھے تو کہتی ہیں چتونیں
سچ ہے کہ ہم سا کب کوئی انساں ہے دوسرا

وہ رک کے اٹھ چلا تو اسے کیونکہ روکئے
اک دست ہے بہ دل بہ گریباں ہے دوسرا

اس گھر کے در پہ جب ہوئے ہم خاک تب کھلا
دروازہ آنے جانے کو اور یاں ہے دوسرا

کیا دل جگر کی اس کی گلی میں کہیں خبر
اک مر گیا اک آن کا مہماں ہے دوسرا

رہیے ہمارے دل میں کہ لائق تمہارے کب
ایسا مکاں بہ کشور دوراں ہے دوسرا

ٹک سنیو زمزمے مرے دل کے کہ باغ میں
کب اس طرح کا مرغ خوش الحاں ہے دوسرا

ہے طرفہ قسمت اپنی کہ جس جا ہو ایک دوست
واں دیکھیے تو جان کا خواہاں ہے دوسرا

یعنی نشست ٹھہری کل اس در پہ تھی سو ہائے
دیکھا جو آج جا کے تو درباں ہے دوسرا

یکتا ہے دو جہان میں جرأتؔ علی کی ذات
ایسا نہ کوئی یاں نہ کوئی واں ہے دوسرا