EN हिंदी
یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے | شیح شیری
yan to kuchh apni KHushi se nahin hum aae hue

غزل

یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے

نظیر اکبرآبادی

;

یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے
اک زبردست کے ہیں کھینچ کے بلوائے ہوئے

آتے ہی روئے تو آگے کو نہ روویں کیوں کر
ہم تو ہیں روز تولد ہی کے دکھ پائے ہوئے

دیکھ کر غیر کے ساتھ اس کو کہا یوں ہم نے
ہو تو تم چاند پر اس وقت ہو گہنائے ہوئے

کل جو گلشن میں گئے ہم تو عجب شکل سے آہ
ہجر کے مارے ہوئے جی سے بتنگ آئے ہوئے

گل جو تازے تھے کھلے کہتے تھے شبنم سے یہ بات
دیکھ کر ان کو جو وہ پھول تھے کمہلائے ہوئے

آج ہیں شاخ پہ جس طور سے پژمردہ نظیرؔ
کل اسی طرح سے ہم ہوویں گے مرجھائے ہوئے