EN हिंदी
یادوں کے دریچوں کو ذرا کھول کے دیکھو | شیح شیری
yaadon ke darichon ko zara khol ke dekho

غزل

یادوں کے دریچوں کو ذرا کھول کے دیکھو

رام ریاض

;

یادوں کے دریچوں کو ذرا کھول کے دیکھو
ہم لوگ وہی ہیں کہ نہیں بول کے دیکھو

ہم اوس کے قطرے ہیں کہ بکھرے ہوئے موتی
دھوکا نظر آئے تو ہمیں رول کے دیکھو

کانوں میں پڑی دیر تلک گونج رہے گی
خاموش چٹانوں سے کبھی بول کے دیکھو

ذرے ہیں مگر کم نہیں پاؤ گے کسی سے
پھر جانچ کے دیکھو ہمیں پھر تول کے دیکھو

سقراط سے انسان ابھی ہیں کہ نہیں رامؔ
تھوڑا سا کبھی جام میں وش گھول کے دیکھو