EN हिंदी
یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں | شیح شیری
yaadon ka hisab rakh raha hun

غزل

یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں

جون ایلیا

;

یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں
سینے میں عذاب رکھ رہا ہوں

تم کچھ کہے جاؤ کیا کہوں میں
بس دل میں جواب رکھ رہا ہوں

دامن میں کیے ہیں جمع گرداب
جیبوں میں حباب رکھ رہا ہوں

آئے گا وہ نخوتی سو میں بھی
کمرے کو خراب رکھ رہا ہوں

تم پر میں صحیفہ ہائے کہنہ
اک تازہ کتاب رکھ رہا ہوں