یاد وہ عمر بھر رہے گا کیا
دل اسی کام پر رہے گا کیا
کیا بکھر کے رہیں گے خواب مرے
آئنہ ٹوٹ کر رہے گا کیا
کیا ہوا اب ادھر نہ آئے گی
حبس یہ عمر بھر رہے گا کیا
وہ جو اک شخص میرے اندر ہے
میرے اندر ہی مر رہے گا کیا
میں ہوا کی طرح ہوں آوارہ
تو مرا ہم سفر رہے گا کیا
نیند اڑتی رہے گی آنکھوں سے
جشن یہ رات بھر رہے گا کیا

غزل
یاد وہ عمر بھر رہے گا کیا
کاشف حسین غائر