یاد اس کی ہے کچھ ایسی کہ بسرتی بھی نہیں
نیند آتی بھی نہیں رات گزرتی بھی نہیں
زندگی ہے کہ کسی طرح گزرتی بھی نہیں
آرزو ہے کہ مری موت سے ڈرتی بھی نہیں
بس گزرتے چلے جاتے ہیں مہ و سال امید
دو گھڑی گردش ایام ٹھہرتی بھی نہیں
دور ہے منزل آفاق دکھی بیٹھے ہیں
سخت ہے پاؤں کی زنجیر اترتی بھی نہیں
سن تو سائل نہیں ہم خاک نشین گمراہ
اے صبا تو تو ذرا دیر ٹھہرتی بھی نہیں
شام ہوتی ہے تو اک اجنبی دستک کے سوا
دل سے پہروں کوئی آواز ابھرتی بھی نہیں
زندگی تو بھی کوئی موج بلا کیوں نہ سہی
ایک ہی بار مرے سر سے گزرتی بھی نہیں
غزل
یاد اس کی ہے کچھ ایسی کہ بسرتی بھی نہیں
شہاب جعفری