EN हिंदी
یاد ان کی دل میں آئی وہ آسودگی لئے | شیح شیری
yaad unki dil mein aai wo aasudgi liye

غزل

یاد ان کی دل میں آئی وہ آسودگی لئے

اعجاز وارثی

;

یاد ان کی دل میں آئی وہ آسودگی لئے
ظلمت میں آئے جیسے کوئی روشنی لئے

اے سعیٔ ضبط لوگوں کو کیا دوں ثبوت غم
ڈر سے ہنسی کے میں نے تو آنسو بھی پی لئے

ضدین کیفیات کو ہم نے سلا دیا
جیتے رہے خوشی سے غم عاشقی لئے

اے سنگ آستاں مرے سجدوں کی لاج رکھ
آیا ہوں اعتراف شکست خودی لئے

اعجازؔ کوئی چارہ گر غم نہ مل سکا
پھرتا رہا ہوں دہر میں دل کی لگی لئے