EN हिंदी
یاد تم آئے تو پھر بن گئیں بادل آنکھیں | شیح شیری
yaad tum aae to phir ban gain baadal aankhen

غزل

یاد تم آئے تو پھر بن گئیں بادل آنکھیں

شکیل شمسی

;

یاد تم آئے تو پھر بن گئیں بادل آنکھیں
دل کے ویرانے کو کرنے لگیں جل تھل آنکھیں

میری آنکھوں کا کوئی ابر سے رشتہ ہے ضرور
ٹوٹ کے برسی گھٹا جب ہوئیں بوجھل آنکھیں

خواب کو خواب سمجھتی ہی نہیں جانے کیوں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں اک شخص کو پاگل آنکھیں

کیسا رشتہ ہے تعلق ہے یہ کیسا آخر
چوٹ تو دل پہ لگی ہو گئیں گھائل آنکھیں

شوخیاں شرم و حیا نور کے سائے جھیلیں
عمر میں پہلے پہل دیکھیں مکمل آنکھیں

جس طرح کوئی غزل لکھی ہو مطلع کے بغیر
یوں نظر آتی ہیں اکثر بنا کاجل آنکھیں

اے شکیلؔ ان سے کہو پیار سے وہ دور رہیں
درد کا بوجھ نہ سہہ پائیں گی چنچل آنکھیں