EN हिंदी
یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے | شیح شیری
yaad nahin kya kya dekha tha sare manzar bhul gae

غزل

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

نظیر باقری

;

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے
اس کی گلیوں سے جب لوٹے اپنا بھی گھر بھول گئے

خوب گئے پردیس کے اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے

تجھ کو بھی جب اپنی قسمیں اپنے وعدے یاد نہیں
ہم بھی اپنے خواب تری آنکھوں میں رکھ کر بھول گئے

مجھ کو جنھوں نے قتل کیا ہے کوئی انہیں بتلائے نذیرؔ
میری لاش کے پہلو میں وہ اپنا خنجر بھول گئے