یاد کرنے کے زمانے سے بہت آگے ہیں
آج ہم اپنے ٹھکانے سے بہت آگے ہیں
کوئی آ کے ہمیں ڈھونڈے گا تو کھو جائے گا
ہم نئے غم میں پرانے سے بہت آگے ہیں
جسم باقی ہے مگر جاں کو مٹانے والے
روح میں زخم نشانے سے بہت آگے ہیں
اس قدر خوش ہیں کہ ہم خواب فراموشی میں
جاگ جانے کے بہانے سے بہت آگے ہیں
جو ہمیں پا کے بھی کھونے سے بہت پیچھے تھا
ہم اسے کھو کے بھی پانے سے بہت آگے ہیں
غزل
یاد کرنے کے زمانے سے بہت آگے ہیں
ذیشان ساحل