یاد جو تجھ کو کر رہے ہیں ہم
کیا حقیقت میں مر رہے ہیں ہم
تیری فرقت میں وقت کی صورت
رفتہ رفتہ گزر رہے ہیں ہم
کل مری روح نے کہا مجھ سے
جسم سے کہہ دو مر رہے ہیں ہم
آج تیرے رخ منور سے
نور آنکھوں میں بھر رہے ہیں ہم
جیسے جیسے وہ طنز کرتے ہیں
ویسے ویسے نکھر رہے ہیں ہم
یاد اس کی نہ آئے کیوں مظہرؔ
مدتوں ہم سفر رہے ہیں ہم
غزل
یاد جو تجھ کو کر رہے ہیں ہم
مظہر عباس