یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں
کھل اٹھے جیسے گلستاں کسی ویرانے میں
اپنے دل ہی میں مکیں دیکھا اسے ہم جس کو
ڈھونڈتے پھرتے رہے کعبہ و بت خانے میں
دل میں تھے شعلہ فشاں حسرت و ارماں شب غم
سینکڑوں شمع فروزاں تھیں سیہ خانے میں
تھے تری بزم میں سب جام بکف اے ساقی
اک ہمیں تشنہ دہن تھے ترے میخانے میں
تیرگی میں بھی رہا جشن چراغاں کا سماں
برق کے شعلے فروزاں رہے کاشانے میں
مرے افسانے کو افسانہ نہ سمجھو یارو
ہے حقیقت ہی حقیقت مرے افسانے میں
ڈال دی ساقیٔ کوثر نے ازل سے رفعتؔ
بادۂ عشق و محبت مرے پیمانے میں
غزل
یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں
سدرشن کمار وگل