EN हिंदी
یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں | شیح شیری
yaad aati hai teri yun mere gham-KHane mein

غزل

یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں

سدرشن کمار وگل

;

یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں
کھل اٹھے جیسے گلستاں کسی ویرانے میں

اپنے دل ہی میں مکیں دیکھا اسے ہم جس کو
ڈھونڈتے پھرتے رہے کعبہ و بت خانے میں

دل میں تھے شعلہ فشاں حسرت و ارماں شب غم
سینکڑوں شمع فروزاں تھیں سیہ خانے میں

تھے تری بزم میں سب جام بکف اے ساقی
اک ہمیں تشنہ دہن تھے ترے میخانے میں

تیرگی میں بھی رہا جشن چراغاں کا سماں
برق کے شعلے فروزاں رہے کاشانے میں

مرے افسانے کو افسانہ نہ سمجھو یارو
ہے حقیقت ہی حقیقت مرے افسانے میں

ڈال دی ساقیٔ کوثر نے ازل سے رفعتؔ
بادۂ‌ عشق و محبت مرے پیمانے میں