یا تو وہ قرب تھا یا دور ہوا جاتا ہوں
اب تو اپنے سے بھی مستور ہوا جاتا ہوں
شعلۂ عشق وہ شعلہ ہے کہ اللہ اللہ
صدقے اس نار کے میں نور ہوا جاتا ہوں
عالم جبر میں قوت کا تخیل تھا بہت
اب وہ قوت ہے کہ مجبور ہوا جاتا ہوں
عشق کی راہ میں منزل کوئی کھوئی ہی نہیں
کیا خبر پاس ہوں یا دور ہوا جاتا ہوں
کس کو سمجھاؤں تجلئ تبسم کا فروغ
برق یہ وہ ہے کہ میں طور ہوا جاتا ہوں
تیرا ہر غم ہے طرب خیز ترے غم کی قسم
شدت درد سے مسرور ہوا جاتا ہوں
کہہ دو تیار کریں دار و رسن پھر سے بشیرؔ
عالم کیف میں منصور ہوا جاتا ہوں
غزل
یا تو وہ قرب تھا یا دور ہوا جاتا ہوں
سید بشیر حسین بشیر