یا تری آرزو سا ہو جاؤں
یا تری آرزو کا ہو جاؤں
مرے کانوں میں جو تو کن کہہ دے
میں تصور سا ترا ہو جاؤں
مجھ سے اک بار ذرا مل ایسے
میں ترے گھر کا پتہ ہو جاؤں
تو بھی آ جانا کہیں رکھ کے بدن
جسم سے میں بھی جدا ہو جاؤں
توڑ کر ماٹی یہ میری پھر سے
یوں بناؤ کہ نیا ہو جاؤں
عشق کی رسم یہی ہے باقی
میں بھی اک بار خفا ہو جاؤں
آشنائی ہے سخن گوئی بھی
اور کتنا میں برا ہو جاؤں
غزل
یا تری آرزو سا ہو جاؤں
ونیت آشنا