EN हिंदी
یا مہ و سال کی دیوار گرا دی جائے | شیح شیری
ya mah-o-sal ki diwar gira di jae

غزل

یا مہ و سال کی دیوار گرا دی جائے

بشیر احمد بشیر

;

یا مہ و سال کی دیوار گرا دی جائے
یا مری خاک خلاؤں میں اڑا دی جائے

کیسے آواز حریم رگ جاں تک پہنچے
اتنی دوری سے تجھے کیسے صدا دی جائے

ہے تو پھر کون ہے اس اوٹ میں دیکھوں تو سہی
درمیاں سے یہ مری ذات ہٹا دی جائے

تیرے بس میں ہے تو پھر یا مجھے پتھر کر دے
یا مری روح کی یہ پیاس بجھا دی جائے

چکھنے پائے نہ کوئی بوند یہ جلتی مٹی
ابر اٹھے تو ہوا تیز چلا دی جائے

کچھ دنوں بعد اسے دیکھا تو دیکھا نہ گیا
جیسے اک جلتی ہوئی جوت بجھا دی جائے

یہ لہکتی ہوئی شاخیں یہ مہکتی بیلیں
یہ ہرا کنج یہیں عمر بتا دی جائے

آخر اس جنگ میں کچھ میرا بھی حصہ ہے بشیرؔ
میرے حصے کی مجھے کیوں نہ ردا دی جائے